نانوتوی کی قبر اور وحی کا نزول


مولانا رفیع الدین صاحب مجددی سابق مہتمم دارالعلوم کا مکاشفہ ہے کہ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی بانی دارالعلوم دیوبند کی قبر عین کسی نبی کی قبر ہے ـ ( مبشرات دارالعلوم ص 36 مطبوعہ محکمہ نشر و اشاعت دارالعلوم دیوبند انڈیا )

ایک دن مولانا نانوتوی نے اپنے پیر و مرشد حضرت حاجی امداد اللہ صاحب سے شکایت کی کہ : ـ

جہاں تسبیح لےکر بیثھا بس ایک مصیبت ہوتی ہے اس قدر گرانی کہ جیسے 100 سو 100 سو من کے پتھر کسی نے رکھ دیئے ہوں زبان و قلب سب بستہ ہو جاتے ہیں ـ

( سوانح قاسمی ج 1 ص 258 مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ لاہور )

اس شکایت کا جواب حاجی صاحب کی زبانی کہ یہ نبوت کا آپ کے قلب پر فیضان ہوتا ہے اور یہ وہ ثقل ( گرانی ) ہے جو حضور صلی اللہ تعالی علیہ و سلم کو وحی کے وقت محسوس ہوتا تھا تم سے حق تعالی کو وہ کام لینا ہے جو نبیوں سے لیا جاتا ہے ـ

( سوانح قاسمی ج 1 ص 259 مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ لاہور )

عین کسی نبی کی قبر ہے ، نبوت کا فیضان وحی کی گرانی اور کار انبیاء کی سپردگی ان سارے لوازمات کے بعد نہ بھی صریح لفظوں میں ادعائے نبوت کیا جائے جب بھی اصل مدعا اپنی جگہ پر ہے ـ
 

نانوتوی صاحب فرشتہ تھے


مولوی نظام الدین صاحب مغربی حیدرآبادی مرحوم جو مولانا رفیع الدین صاحب سے بیعت تھے اور صالحین میں سے تھے احقر سے فرمایا جبکہ احقر حیدرآباد گیا ہوا تھا کہ مولانا رفیع الدین فرماتے تھے کہ میں پچیس برس مولانا نانوتوی کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں اور کبھی بلا وضوء نہیں گیا میں نے انسانیت سے بالا درجہ ان کا دیکھا ہے وہ شخص ایک فرشتہ مقرب تھا جو انسانوں میں ظاہر کیا گیا ـ

( ارواح ثلثہ ص 231 مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ لاہور )

دیوبندیوں سے یہ کوئی پوچھے کہ اپنے مولوی کی تعریف کرتے وقت نور و بشر کی بحث بھول گئے ـ یہ تو نانوتوی کو بشر ہی نہیں مانتے فرشتہ مانتے ہیں ـ بھول گئے تقویۃ الایمان کے مصنف اپنے غبی امام کی کفر کی فیکٹری ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
 
Make a Free Website with Yola.